اپریل 1968ء کے آخری ایام تھے۔ میں لائل پور سے بس پر سوار ہوا۔ میری منزل تحصیل لیہ تھی۔ میں نےفتح پور سے بارہ میل اور چوک اعظم سے آٹھ میل کے فاصلے پر صحرائی علاقے میں جانا تھا۔ پل حیات کے مقام پر میں بس سے اترا۔ چک ابھی چار میل دور تھا۔ گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ میں دوپہر کے وقت ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں پر سفر کرتے ہوئے اپنا راستہ بھول گیا۔ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ پانچ چھ فرلانگ کے فاصلے پر درختوں کے جھنڈ میں چند مکان دکھائی دئیے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے عورتوں کے رونے اور بین کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بستی میں پہنچا تو ایک مکان کے سامنے بہت سے لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوتا تھا گاؤں میں کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے۔
بڑے بڑے خوفناک کتوں نے میرا استقبال کیا‘ ایک آدمی آیا اس نے مجھے کتوں کے نرغے سے نکالا اور درخت کے نیچے چارپائی ڈال دی اور گھر سے ٹھنڈے دودھ کا پیالہ مجھے پیش کیا دودھ پی کر میری جان میں جان آئی۔ میں نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ وہ تسلی دیتے ہوئے بولا: فکر نہ کرو‘ یہ چک نمبر 290 ہے۔ تمہارا چک یہاں سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ آج شام تمہارے چک کا چوکیدار یہاں آنے والا ہے اس کے ساتھ چلے جانا۔
میں نے عورتوں کی آہ وبکا کے بارے میں دریافت کیا۔ تو وہ غم میں ڈوب گیا کیا بتاؤ ںباؤ جی‘ پٹھانے کو اونٹ نے کھالیا ہے‘ اس نے سرجھکا کر کہا‘ پٹھانا ہمارا پڑوسی تھا‘ کچھ عرصہ پہلے اس نے ایک اونٹ خریدا۔ یہی اونٹ اسے نگل گیا۔ وہ دیکھئے‘ سامنے درخت کے نیچے بندھا ہوا ہے۔ درخت کے نیچے ایک موٹا تازہ اونٹ کھڑا جگالی کررہا تھا‘ اس کے جبڑوں میں ابھی تک خون لگا ہوا تھا۔ پھر میں نے پٹھانے کے بھائی کو بلایا تو اس نے کہا پندرہ بیس دن پہلے ہم نے یہ اونٹ فتح پور سے بارہ سو روپے میں خریدا تھا۔ اونٹ غصہ ور ضرور تھا مگر ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ خونخوار بھی ہوگا۔ بھائی کی موت کے بعد کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ اس نے پہلے بھی دو آدمیوں کو کھالیا تھا۔ میں پٹھانے کی لاش کو دیکھنا چاہتا تھا۔ پٹھانے کے بھائی نے جب لاش پر سے کپڑا اٹھایا تو میں دہشت سے کانپ اٹھا۔ چارپائی پر کھوپڑی اور چند بڑی بڑی ہڈیاں پڑی تھیں۔ جسم کا سارا گوشت نوچ لیا گیا تھا۔ اف خدایا! کتنا خوفناک تھا وہ منظر۔۔۔۔!
پٹھانے کے بھائی نے حادثے کی تفصیلات بتانی شروع کیں: ’’فتح پور منڈی سے ہم دونوں بھائی اسی اونٹ پر سوار ہوکر آئے اور دو ہفتے تک اس سے کوئی کام نہ لے سکے یہ تھان پر بندھا ہوا چارہ کھاتا رہا۔ آج صبح ہمیں اپنے کھیتوں سے سرسوں کا بیج لانا تھا۔ بھائی نے اسے نکیل ڈالی اور چک کے ایک اورآدمی محمدعلی کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف چل دیا۔ گاؤں سے تھوڑی دور جاکر اونٹ نے گرد کو ادھر ادھر جھٹکے دیے اور پھر زمین پر بیٹھ گیا۔ بھائی نے اسے کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔ تنگ آکر وہ اسے ڈنڈے سے پیٹنے لگا۔ بدقسمتی سے ڈنڈے کی ایک ضرب اونٹ کی نکیل پر لگی نکیل ناک سے نکل گئی اور اونٹ آزاد ہوگیا۔‘ بس پھر کیا تھا بابو جی! وہ آہ بھر کر بولا: اونٹ نے میرے بھائی کو گردن سے دبوچا۔ نیچے گرا کر اس پر اپنا پاؤں رکھ دیا اور منہ سے اس کا گوشت نوچنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر محمدعلی شور مچاتا اور واویلا کرتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگا۔ ہم ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے کر دوڑے۔ لیکن جب ہم لوگ وہاں پہنچے‘ لاش کی جگہ وہ ہڈیاں پڑی تھیں جو آپ دیکھ کرآئے ہیں۔ میں نے کہا آپ ایسے اونٹ کو گولی کیوں نہیں مار دیتے؟ وہ کہنے لگا ہمیں اس اونٹ کا ایک ہزار روپیہ مل رہا ہے وہ درخت کے نیچے بیٹھا شخص اس کا خریدار ہے۔ عصر کے بعد وہ شخص اونٹ کی قیمت ادا کرکے چلا گیا۔ شام کو چوکیدار کے ساتھ میں اپنے چک آگیا اور چند دن وہاں ٹھہر کر واپس فیصل آباد لوٹ آیا۔ بعد میں کچھ پتہ نہ چل سکا کہ آدم خور اونٹ نے اپنے نئے مالک کا کیا حشر کیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں